حج بیت اللہ روحانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ

 

از: ریحان اختر، ریسرچ اسکالر‏، شعبہٴ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

 

          اسلام میں عبادتیں دو طرح کی ہیں، ایک کا تعلق انسان کے جسم سے ہوتا ہے، مثلاً نماز، روزہ وغیرہ اور عبادت کی دوسری قسم کا تعلق انسان کے مال سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبِ ثروت کی ذاتی کمائی میں معذور اور مجبور بندگانِ خدا کا بھی حصہ ہوتا ہے، جو زکوٰة صدقات کی شکل میں حق داروں کو پہنچایا جاتا ہے۔ ان دوعبادتوں کے مجموعے کو حج کہا جاتا ہے، جس میں جسمانی عبادت کے ساتھ مالی عبادت بھی انجام پاجاتی ہے۔ شاید اسی حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے خداوند عالم نے صرف صاحب استطاعت مسلمانوں پر ہی اس عبادت کو فرض کیا ہے، جس کی انجام دہی کے لیے جسمانی مشقت، مالی اخراجات کے ساتھ اپنے اہل وعیال اور وطنِ عزیز کی جدائی کا غم بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

          جس طرح نماز، روزہ اور زکوٰة تمام عبادتیں سابقہ شریعتوں میں فرض تھیں، اسی طرح کسی مقدس ومحترم مقام کی زیارت کے لیے جانا بھی کسی نہ کسی صورت تمام شریعتوں میں تھا؛ مگر حقیقتاً فریضہٴ حج ملت ابراہیمی کی یادگار ہے جو قیامت تک زندہ تابندہ رہے گی۔ قرآن پاک میں متعدد آیات میں حج بیت اللہ کی زیارت کا ذکر آیا ہے۔ اور آیات قرآنی میں حج کے تمام ضروری احکام وہدایات واضح کردی گئی ہیں۔ فریضہٴ حج صرف صاحب استطاعت لوگوں پر ہے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:

          وَلِلہ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ الیہ سَبِیْلا (آل عمران آیت ۹۷)

          ترجمہ: اوراللہ تعالیٰ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔

          حج تو درحقیقت خدا کی اس مقدس سرزمین پر حاضری کا نام ہے، جہاں نبیوں، رسولوں اور برگزیدہ بندوں نے اپنی حاضری کے ذریعہ اطاعت وبندگی کا فریضہ انجام دیا ہے، اور اپنی اطاعت وبندگی کا عہدوپیمان کیا ہے۔ درحقیقت اس فریضہ کی ادائیگی کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں اپنی غلطیوں سے توبہ کرنا اور اپنے انتہائی محسن ومنعم ومولیٰ و مالک کو منانا ہے؛ تاکہ وہ ہم پر نظررحمت کردے اور ہمارے ساتھ عفودرگزر کا معاملہ کرے؛ کیوں کہ وہ رحم وکرم اور لطف وعنایت کا بحرِبے کراں ہے۔

          حج انسان کو کس طرح سے اللہ رب العزت کی نگاہ میں معزز ومکرم اور موقر ومحترم بنادیتا ہے اور حج کی ادائیگی کے بعد اس کی زندگی میں کیسی زبردست تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور کس طرح سے اس کی تربیت ہوجاتی ہے، پیغمبر اعظم کا ارشاد گرامی ہے کہ:

          عَنْ أبِيْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَانَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّھَبِ وَالْفِضَّة (مشکوٰة المصابیح کتاب المناسک، ص:۲۲۰)

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے ادا کرو؛ اس لیے کہ یہ دونوں افلاس اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے میل کو دور کردیتی ہے۔

          ایک دوسری حدیث میں ہے:

          عَنْ اُمِّ سَلْمَةَ قَالَتْ سَمعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ أَھَلَّ بِحَجَّةٍ أوْ عُمْرَةٍ عَنِ الْمَسْجِدِ الأقْصٰی الی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ عَنْ ذَنّبِہ وَمَا تَأخَّرَ وَ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ (مشکوٰة المصابیح، کتاب المناسک،ص:۲۲۲)

          حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو شخص احرام باندھے حج اور عمرہ کا مسجدِ اقصیٰ سے مسجد حرام تک اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور جنت اس کے لیے واجب ہوجاتی ہے۔

          حج بیت اللہ تو مومنین کے لیے توبہ وانابت، روحانی تربیت،اور رجوع الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہے اور بندگی و طاعت اور خودسپردگی کا مظہر ہے۔ ایک مومن کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ عشقِ خداوندی اور محبتِ الٰہی سے اپنے قلوب واذہان کو مسحور رکھے۔ جب احرام باندھے اور تلبیہ ”لبیک اللّٰھم لبیک“ کا ورد کرے، تو ایسا محسوس ہوکہ بارگاہ الٰہی سے بندہ کو اطاعت و فرمانبرداری کے لیے بلایا جارہا ہے، اس پکار سے آدمی کے اندر عبدیت وبندگی کا احساس تازہ ہو اور خواہش نفس پر قابو پانے کا جذبہ نشوونما پائے۔ اس عمل سے ہر ہر قدم پر تواضع وانکساری، روحانی کیف وسرور، خوف وخشیت، اخلاص وللہیت پیدا ہوجائے۔ صبر وتحمل کی عادت پڑجائے، فریضہٴ حج کی ادائیگی سے موٴمن ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ کا حقیقی مصداق بن جاتا ہے۔

           بحسن وخوبی اس فریضہ کی ادائیگی کے بعد آدمی کی پوری ذات اطاعت وبندگی، خوف وخشیتِ ربانی اور فنا فی اللہ کا ترجمان بن جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ ہر برے عمل سے اجتناب کرنے لگتا ہے، اس کے اندر اعمالِ صالحہ کی طرف سبقت کاذوق وشوق بڑی تیزی سے بڑھ جاتا ہے، اس کی زندگی میں انقلاب آجاتا ہے، اب اس کی زندگی میں ایک نئی روح، ایک نئی حیات اور اس کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا ہے، جس میں دین ودنیا کی بھلائیاں جمع اور دونوں کی کامیابی شامل ہوتی ہے۔

          حج بیت اللہ درحقیقت وہ عظیم الشان فریضہ ہے جس میں ایک حاجی کو وقت کی قربانی دینا پڑتی ہے، مال خرچ کرنا پڑتا ہے اور جسمانی مشقتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ مزید برآں اعزہ واقرباء اور احباب و رفقاء سے دور ہوکر اور ان کی یادوں کو بالائے طاق رکھ کر اللہ رب العزت اور اس کے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادوں کے ورد کو اس تربیتی کورس میں اپنی زندگی کا شیوہ بناتا ہے، اس طرح اس کے اندر اخلاص وللہیت، اخوت ومحبت، ایثار وقربانی اور دوسرے ان تمام اوصافِ حسنہ کو نشونما دینے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے جس کے دور بیں اثرات ونتائج اس کی عملی زندگی میں سامنے آتے ہیں اور پھر بلاشبہ اس کی زندگی قوم وملت بلکہ پوری دنیا کے لیے موجبِ سعادت ورحمت ثابت ہوجاتی ہے۔

***

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء